Our social:
Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

LATEST ARTICLES

Tuesday, July 30, 2019

Urdu dotted tracing fonts

Urdu dotted tracing fonts

How to use watch this video



Download Now
Free Free Free Free Free Free
Many people are searching urdu dotted font



Now free download

Old Rates
Urdu Tracing Urdu Dotted

TrueType font (ttf):

Work in MS Word, Excel etc.

& Inpage 3 (not in old inpage)

01 TLP Urdu dotted Rs. 500/-

02 TLP English  dotted   300/-

04 TLP Half Urdu     Rs. 200/-

To get Contact Call/Whattsapp:

03335576460













--------------------------------------------------------------------------------------------------------

----------------------------------------------------------------------------
Urdu and English Tracing Worksheet - Free Printable and free download

-------------------------------------------------------------------------------
You Can Also Download Urdu Fonts
New Fonts 300+ Urdu Download free
All Urdu Best Fonts available here just click
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Download free Summer Task for Play Group
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------





Best of luck


Monday, July 22, 2019

Umar and small sparrow Story for kids عمر اور چھوٹی چڑیا






کہانی: عمر اور چھوٹی چڑیا
میرے سوہنے موہنے بچو!  یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے بچے عمر کی جو اپنی امی اور دادی جان کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن عمر  صحن میں  گیند سے کھیل رہا تھا کہ اسے ایک آواز آئی۔

’’چوں چوں چوں!‘‘
اس نے دیکھا۔سامنے والی دیوار پر ایک چھوٹی سی چڑیا بیٹھی ہوئی تھی۔شاید  اس کو بھوک لگی تھی۔ عمر نے سوچا۔ میں اس کو دوپہر والے چاول کھلاتا ہوں  جو امی جان نے فریج میں رکھے ہوئے تھے۔
’’امی جان! امی جان! مجھے ایک پلیٹ میں چاول ڈال دیں۔‘‘
’’ بیٹا! ابھی تو آپ نے کھانا کھایا ہے۔ ‘‘ امی جان حیران ہوئیں تو عمر نے کہا۔
’’بس آپ ڈال دیں ناں!‘‘


امی جان نے ایک سرخ پلیٹ میں عمر کو چاول ڈال کر دیے۔ عمر بہت خو ش ہوا۔ اس نے پلیٹ اٹھائی اور باہر صحن میں آگیا۔
’’آہا! میں اس چڑیا کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاؤں گا۔‘‘ اس نے سوچا۔پھر اس نے اونچی آواز میں کہا۔
’’آجا ؤ پیاری چڑیا!  میں تمھارے لیے  کھانا لایا ہوں۔ آجاؤ ناں!۔۔۔ پلیز آجاؤ! دیکھو کتنے مزے دار چاول ہیں بنائے ہیں امی نے!‘‘
لیکن چھوٹی چڑیا نہ  آئی۔ وہ بس دیوار پر بیٹھ کر چوں چوں کرتی رہی۔ یہ دیکھ کر عمر اداس ہو گیا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ چڑیا نیچے آجائے اور اس کے ہاتھ سے چاول کھائے لیکن  شایدچھوٹی چڑیا کو ڈر لگتا تھا۔


آخر امی جان کچن سے نکلیں تو انہوں نے دیکھا۔  عمر چاول کی پلیٹ سامنے رکھے اداس بیٹھا تھا۔ دیوار پر چڑیا اب اور زور زور سے چوں چوں کر رہی تھی۔ امی جان ساری بات سمجھ گئیں۔ انہوں نے عمر کے کان میں کچھ کہا۔
پھر عمر نے پلیٹ اٹھا کر دیوار کے پاس رکھ دی اور امی کا ہاتھ پکڑ کر اندر چلا آیا۔
اب وہ کمرے میں اس کھڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا جو صحن میں کھلتی تھی۔ چھوٹی چڑیا کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ جب صحن میں کوئی نہ تھا تو وہ نیچے اتر آئی اور جلدی جلدی چاول کھانے لگی۔






’’یا ہو! چڑیا نے چاول کھالیے! چڑیا نے چاول کھا لیے!‘‘ عمر نے نعرہ لگایا تو امی جان مسکرانے لگیں۔
اب عمر ہر روز چڑیا کے لیے کھانا اور پانی  رکھتا ہے۔ چھوٹی چڑیا عمر کی  بہت اچھی دوست بن گئی ہے۔ وہ روز آتی ہے اور اپنے ساتھ اپنی سہیلیوں کو بھی لاتی ہے۔

میرے پیارے بچو! آج کل گرمی کا موسم ہے۔ آپ بھی اپنے چھت پر ٹھنڈا پانی اور تھوڑے سے چاول یا باجرہ ضرور رکھیں۔ ننھے پرندے آئیں گے اور کھانا کھا کر آپ کو دعا دیں گے۔اور  ہو سکتا ہے وہ آپ کے دوست بھی بن جائیں اور آپ کے ہاتھ سے دانہ کھانے لگیں! آہا!کتنا مزہ آئے گا ناں! اور کیا معلوم کسی دن   ہماری چھوٹی چڑیا آپ کے گھر بھی کھانا کھانے آئے !
                                                                  
                               محمد فیصل
03335576460

لیموں کا پودا



لیموں کا پودا



میرے سوہنے موہنے بچو!یہ کہانی ہے ایک پودے کی جو بہت چھوٹا سا تھا۔ وہ لیموں کا پودا تھا۔ جب مالی بابا نے اسے کیاری میں لگایا تو وہ بہت خوش ہوا۔ اسے بہت مزہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد لیموں کے پودے نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے ساتھ آم کا درخت لگا ہوا تھا۔




’’اوہ! یہ تو بہت اونچا ہے! ‘‘
پھرلیموں پودے نے دائیں طرف دیکھا۔ وہاں جامن کا پودا لگا ہوا تھا۔ وہ بھی بہت بڑا تھا۔ لیموں کے پودے سے کافی بڑا۔
’’اوہ! اتنا بڑا !‘‘ لیموں پودے نے کہا اور وہ اداس ہو گیا۔
’’اوں ہوں! میں کب بڑا ہوں گا۔سب مجھ سے بڑے ہیں۔ یہ کیا با ت ہوئی!‘‘
آم کا درخت لیموں کی بات سن رہا تھا۔ اس نے کہا۔
’’پیارے پودے! آپ بھی بہت جلدی بڑے ہو جائیں گے۔ پریشان نہ ہوں۔‘‘
پھر دھوپ پڑنے لگی۔ بہت تیز دھوپ۔لیموں پودے کو تو گرمی لگنے لگی۔ آم کے درخت کے نیچے چھاؤں تھی۔ لیموں پودا  ذرا سا ترچھا ہو گیا اور آم کے درخت کے نیچے آ گیا۔
مالی بابا وہاں سے گزرے تو انہوں نے دیکھا۔ لیموں پودے کو دھوپ نہیں لگ رہی تھی۔ انہوں نے پیار سے لیموں پودے کو سیدھا کھڑا کیا اور چلے گئے۔
’’اف یہ کیا! اتنی گرمی لگ رہی ہے مجھے۔ میں کیا کروں؟‘‘ لیموں پودے کو تو پسینہ آنے لگا۔آم کے درخت نے کہا۔




’’کوئی بات نہیں! دھوپ لگنا تو اچھی بات ہے۔‘‘
اب لیموں پودے کو پیاس لگ رہی تھی۔
’’پانی! پانی!‘‘ وہ گھبرا گیا ۔
پھر مالی بابا آئے ۔ ان کے ہاتھ میں لمبا سا پائپ تھا۔ انہوں نے ایک  طرف سے کیاری کو پانی دینا شروع کیا۔ جلد ہی لیموں پودے پر بھی پانی پڑنے لگا۔
’’آہا! آہا! کیا مزے کا پانی ہے! ٹھنڈا ٹھنڈا!‘‘ لیموں پودے کو بہت مزہ آ رہا تھا ۔
پھر مالی بابا نے پائپ سمیٹ لیا اور چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعدوہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں کھاد کا تھیلا تھا۔ انہوں نے تھوڑی تھوڑی کھاد سب پودوں کے پاس ڈال دی۔ لیموں پودے کو کھاد سے بہت بدبو آئی۔
’’اف! یہ کیا ہے؟ مجھے سانس نہیں آرہا ۔ اتنی بدبو!‘‘
لیکن تھوڑی دیربعد ہوا چلنے لگی۔ پیار ی سی ہوا۔ جس نے کھاد کی بد بو کو کم کر دیا۔ لیموں پودے کو ہوا بہت اچھی لگی۔اس نے کہا۔
’’ارے! یہ ہوا تو بہت اچھی ہے۔ یہ میری دوست ہے ۔بس!‘‘
لیکن تھوڑی دیر بعد ہوا تیز ہو گئی۔ سب پتے ہلنے لگے۔ لیموں پودا ڈر گیا۔
’’ارے یہ کیا! آہستہ چلو پیاری ہوا! میں تو گر جاؤں گا۔ ‘‘ وہ ادھر ادھر ہل رہا تھا۔ یہ دیکھ کر آم کے درخت نے کہا۔




’’پیارے پودے! ہوا سے نہ ڈرو۔ ہوا کا مقابلہ کرو۔ سختی سے کھڑے رہو۔ پھر ہوا آپ کو گرا نہیں سکے گی۔‘‘
یہ سن کر لیموں پودا پوری مضبوطی سے جم گیا۔ اب وہ ادھر ادھر نہیں ہل رہا تھا۔  اس نے تیز ہوا کا  خوب مقابلہ کیا۔پھر سورج ڈھل گیا۔
 لیموں پودا تھک گیا تھا۔ وہ سو گیا۔ باقی سب پودے بھی سو رہے تھے۔
اگلی صبح جب پودا اٹھاتو مالی بابا پانی دے کر جا چکے تھے۔ اس نے خوب پانی پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اچانک آم کے درخت نے کہا۔
’’ارے واہ! پیارے پودے!  ماشاء اللہ!آپ تو بڑے بڑے لگ رہے ہیں۔‘‘
یہ سن کر لیموں پودے نے خوشی سے چیخ ماری۔
’’کیا واقعی! ‘‘
پھر اس نے جھک کر دیکھا۔ گھاس کے پتے بھی یہی کہہ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




میرے پیارے بچو! ہر پودے کو بڑا ہونے کے لیے اچھی دھوپ، پانی، ہوا اور کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بھی آپ پودا لگائیں تو ان ساری چیزوں کا خیال رکھیں کیونکہ  اگر پودا بڑا نہ ہوا تو وہ اداس ہو جائے گا۔

Red Shoes story for kids سرخ جوتے بچوں کے لیے کہانی

سرخ جوتے
Red Shoes



پیارے بچو! ننھی  سیما کو اپنے سرخ جوتے بے حد پسند تھے۔ جب بھی کہیں جانے یا گھومنے کا پروگرام بنتا ننھی سیما جلدی جلدی تیار ہوتی اور سرخ جوتے پہن لیتی۔ماما جان نے ننھی سیما کا قریبی سکول میں داخلہ کروا دیا تھا۔




آج صبح گھر میں پیاری سی چہل پہل تھی۔ پیارے بچو! یہ اس لیے کہ آج ننھی سیما کا سکول میں پہلا دن تھا۔ کچن سے مزیدار سینڈوچز کی خوشبو آرہی تھی۔ آپا نے ننھی سیما کا چھوٹا سا یونیفارم پلک جھپکتے میں استری کر دیا۔ بھیا نے چھوٹے چھوٹے سیاہ سکول شوز چمکا دیے۔ جب سکول کی وین آنے میں کچھ ہی وقت رہ گیا

تو دادو جان بولیں۔ ’’ارے بٹیا کو اٹھاؤ بھی!‘‘ تب ماما جان کچن سے نکلیں اور ان کے ہاتھ میں ننھی سیما کے لیے پنک کلر کا لنچ باکس تھا  جو آپا نے ان کے ہاتھ سے لے کر باربی ڈول والے بیگ میں احتیاط سے رکھ دیا۔

ننھی سیما خلافِ معمول ماما جان کی ایک ہی آواز پر اٹھ چکی تھی۔ پھر اس نے جلدی جلدی  دانت صاف کیے منہ ہاتھ دھویا اور ناشتے کے لیے دادو جان کے ساتھ تخت پر آبیٹھی۔ دادو جان ننھی سیما کو جوکا شہد ملا دلیا کھلانے لگیں۔


کچھ ہی دیر بعد ننھی سیما سکول جانے کے لیے بالکل تیا ر تھی۔ لیکن یہ کیا!







ماما جان کی نظر اسکے جوتوں پر گئی۔ ننھی سیما سفید یونیفارم پر چھوٹا سا پنک بیگ لٹکائے سرخ جوتے پہنے کھڑی تھی۔
ماما جان نے فوراً بھیا سے پوچھا تو وہ کہنے لگے۔ میں نے تو سیما کو سکول شوز پہنائے تھے۔







ہوا یہ کہ جب ماما جان کچن میں کسی کام سے گئیں تو ننھی سیما نے ادھر ادھر دیکھا۔ دادو جان  کمرے میں اشراق کی نماز پڑھنے جارہی تھیں۔ بھیا دودھ لینے چلے گئے تھے اور آپا اپنا یونیفارم استری کر رہی تھیں۔
ننھی سیما کے ننھے سے دل کویہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ وہ سرخ جوتے چھوڑ کر یہ کالے کالے شوز پہنے۔ بس! اس نے فوراً سکول شوز اتار کر سرخ جوتے پہن لیے۔




اب ایک ہنگامہ کھڑا تھا۔ ننھی سیما روئے چلی جارہی تھی ۔’’ نہیں نہیں میں نے سرخ جوتے پہن کر سکول جاؤں گی۔‘‘  بھیا نے بہتیرا سمجھایا۔ آپا نے اپنے سکول شوز دکھائے۔ ماما نے سرزنش کی اور ابا نے لاڈ پیار کیا۔
لیکن پیارے بچو! کیا کریں۔۔ ننھی سیما کی تو سرخ جوتوںمیں گویا جان تھی! آخر دادو اپنےکمرے سے نفل پڑھ کر باہر آئیں اور  ننھی سیما کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا۔




پھر دادو جان کہنے لگیں۔’’ دیکھو میری بٹیا! سرخ جوتے بہت نازک ہیں۔ یہ سکول میں گرد مٹی سے خراب ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ کا دل کرے گا کہ آپ کے اتنے پیارے سرخ جوتوں پر شرارتی بچے پانی پھینک دیں یا  مٹی اڑ اڑکر ان کے سفید پھولوں کا رنگ خراب کر دے؟ ‘‘ ننھی سیما نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔ تو دادو جان نے کہا۔




’’پھر آپ سکول شوز پہن لیں ۔ کیونکہ وہ بہت بہادر ہیں۔ اور وہ مٹی گرد اور پانی کا

 مضبوطی سے مقابلہ کرتے ہیں۔‘‘یہ سنتے ہی ننھی سیما نے سرخ جوتے اتار دیے اور

 احتیاط کے ساتھ اپنے ریک میں رکھ دیے۔ بھیا سکول شوز لے آئے تو ننھی    
سیما نے  خوشی 


خوشی پہن لیے۔یہ دیکھ کر سب مسکرانے لگے۔

اب وین آچکی تھی اور ننھی سیما وین میں بیٹھنے کے لیے  بالکل تیار تھی۔

Khas Kam story for kids خاص کا م

خاص کا م



ماہین دیر سے اپنے دونوں بھائیوں کا انتظار کررہی تھی ۔وہ اب تک گھر نہیں لوٹے تھے ۔جب اس کا انتظار طویل ہو گیا تو وہ اپنی امی کے پاس آئی اور بولی :”امی ! بھائی اب تک کیوں نہیں آئے؟


ماہین دیر سے اپنے دونوں بھائیوں کا انتظار کررہی تھی ۔وہ اب تک گھر نہیں لوٹے تھے ۔جب اس کا انتظار طویل ہو گیا تو وہ اپنی امی کے پاس آئی اور بولی :”امی ! بھائی اب تک کیوں نہیں آئے؟
بیٹا ! انھیں ایک خاص کام مکمل کرنا ہے ،بس کچھ ہی دیر میں آنے والے ہوں گے ۔
امی نے اسے پیار کرتے ہوئے جواب دیا۔


ماہین کی نظریں دروازے پرہی لگی ہوئی تھیں ۔اسے نیند آنے لگی اور آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں ۔
یہ ایک چھوٹا سا گھرانہ تھا ،جہاں ماہین اپنی امی اور دوبھائیوں راشد اور عمران کے ساتھ رہتی تھی ۔
ان کے ابو کا انتقال ہو چکا تھا ،اس لیے گھر کی ذمے داری دونوں بھائیوں پر آن پڑی تھی ۔دونوں بھائی بہت محنتی تھے اور گھر بھر کا بوجھ انھوں نے اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا تھا ۔

دونوں جب کام پر سے واپس آتے تو ماہین کو سیر کرانے ایک قریبی پارک لے جاتے ،جہاں کئی جھولے بھی لگے ہوئے تھے ۔
ماہین ان جھولوں پر جھولا کرتی ۔جب اس کا دل بھرجاتا تو وہ گھر کی راہ لیتے ۔
راشد اور عمران جب گھر میں داخل ہوئے تو ماہین سو چکی تھی ۔ان کے پاؤں مٹی سے اَٹے ہوئے تھے ۔چہروں سے بھی تھکاوٹ ظاہر ہورہی تھی۔انھوں نے ماہین کو سوتے ہوئے پایا تو اُداس ہو گئے ۔



آج ہم اسے پارک میں نہیں لے جا سکے ۔“راشد کے لہجے میں افسر دگی تھی ۔
آج ہم اتنی دیرسے جو آئے ہیں ۔“عمران نے کہا تو راشد نے سر ہلادیا ۔
اگلی صبح ماہین کی آنکھ کھلی تودونوں بھائی اسے نظر نہ آئے۔وہ امی کے پاس آئی ۔

امی ! بھائی کہاں ہیں ؟“اس نے رونی صورت بنا کر پوچھا ۔
بیٹا ! وہ تو صبح سویرے ہی کام پر جا چکے ہیں ۔“امی نے جواب دیا۔
مگر اتنی جلدی ،وہ تو دیر سے کام پر جاتے ہیں نا؟“ماہین نے معصومیت سے سوال کیا۔



بیٹا ! میں نے کل کہا تھا نا،انھیں ایک خاص کام مکمل کرنا ہے ،شاید اسی لیے وہ جلد چلے گئے ہیں ۔“امی نے جواب دیا۔
امی کا جواب سن کر وہ افسردہ ہو گئی ۔اس نے ٹھیک طرح سے ناشتہ نہیں کیا ۔اسکول میں وقفے کے دوران بھی اسے بھائیوں کا خیال آتا رہا ۔
اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ دوڑ کر اس جگہ پہنچ جائے ،جہاں اس کے بھائی کام کرتے تھے ،مگر یہ اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔اب اسے شدت سے شام کا انتظار تھا ۔بھائیوں کا انتظار کرتے کرتے دو پہر سے شام اور پھر رات ہونے لگی ،وہ اب تک نہیں لوٹے تھے ۔
انتظار کرتے کرتے وہ آج بھی نیند کی وادیوں میں کھو گئی ۔اب تو روز یہی ہونے لگا ۔دونوں بھائی اس کے اُٹھنے سے پہلے کا م پر روانہ ہو جاتے اور جب گھر واپس آتے ماہین انتظار کرکے سو چکی ہوتی ۔



ایک دن جب ماہین اسکول جانے لگی تو جاتے ہوئے بولی :”امی ! کیا بھائی مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں ،کئی دنوں سے مجھے پارک بھی نہیں لے گئے۔
امی نے اس کی آنکھوں میں نمی تیرتے دیکھی تو ان کا دل تڑپ کررہ گیا۔
بیٹا ! ایسی بات نہیں ،چند دنوں کی بات ہے ،یہ دن تو جلدی ہی گزر جائیں گے ۔“امی نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ان کی بات سن کر ماہین کے دل کو تسلی ہوئی ۔


کل اتوار تھا ،ماہین اسکول سے واپس آئی تو کھانا کھا کر رات تک سوتی رہی ۔رات میں وہ جاگ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ماہین نے بھاگ کر دروازہ کھولا۔دونوں بھائیوں نے اسے حیرت سے دیکھا ۔اچانک ہی اس کی نظر یں دونوں کے پیروں پر پڑیں ۔
ان کے پاؤں اور چپل گرد آلود ہو چکے تھے ۔



اس نے سوچا :”بھائی تو صاف ستھرے رہتے ہیں ،پھر ان کے پاؤں اور چپلوں پر مٹی کیسی ؟
ماہین ! یہاں آؤ۔“امی نے اسے آواز دی اوروہ دوڑی چلی آئی ۔
کل ہم پارک جائیں گے ،ابھی تم سو جاؤ ۔


امی نے اسے زبردستی سلادیا۔
ماہین سو کر اُٹھی تو دونوں بھائی موجود نہیں تھے ۔وہ جلدی سے امی کے پاس آئی وہ اسے دیکھتے ہی بولیں :”بیٹا ! تمھارے بھائیوں کا وہ خاص کام مکمل ہونے ہی والا ہے ، اس لیے وہ آج بھی کام پرگئے ہیں ۔



یہ سن کر ما ہین اُداس ہو گئی ۔امی نے اس کی اُداسی دیکھی تو اسے پارک لے گئیں ۔کئی دنوں بعد اسے جھولنے سے اس کی طبیعت بہل گئی ۔صبح جب وہ اسکول گئی تو استانی نے بتایا کہ کل ہم سب چڑیا گھر کی سیر کرنے جارہے ہیں ،اس لیے آپ سب اپنے امی ابو کو بتادیں کہ کل واپسی دیر سے ہو گی ۔
ماہین چڑیا گھر کی سیر کی سن کر بڑی خوشی ہوئی ۔اسی خوشی میں وہ جلد ہی سو گئی ۔اگلے دن اسکول اسمبلی کے بعد سب بچوں کو چڑیا گھر لے جایا گیا ۔
شام تک چڑیا گھر میں سیروتفریح کے بعد جب بچوں کا جی بھر گیا تو استانیوں نے انھیں وین میں بیٹھنے کی ہدایت کی ۔



ان کے بیٹھنے کے بعد وین روانہ ہوئی ۔گاڑیوں کے ہجوم کی وجہ سے آہستہ آہستہ چل رہی تھی ۔شام سے اب رات ہو چکی تھی ۔کئی بچے وین میں ہی سو چکے تھے ۔ماہین کو بھی نیند آرہی تھی کہ اچانک ہی اسے دونوں بھائی نظر آئے ۔وہ دونوں پیدل تھے ،شاید سستانے کے لیے رک گئے تھے ۔




اچانک اس کے کان میں آواز آئی:”اگر ہم ایک ماہ سے پیدل چلنے کے عادی نہ ہوتے تو دوسروں کی طرح ٹریفک میں پھنسے ہوتے ۔“یہ اس کے بھائی عمران کی آواز تھی ۔


ہاں بھائی ! ہم نے پیدل چل کر کافی پیسے بچالیے ہیں اور ہمیں چھٹی والے دن کام کرنے کے پیسے بھی مل جائیں گے ۔
اس طرح ہم اپنی پیاری بہن ماہین کی سال گرہ پر اس کی پسند کا تحفہ ضرور خرید سکیں گے ۔“راشد نے کہا اور اپنے قدم تیزی سے آگے بڑھائے۔
ماہین نے جب ان کی باتیں سنیں تو اس کی نیند غائب ہو گئی ۔اسے یاد آیا کہ ایک ماہ پہلے اس نے دونوں سے ایک منہگے تحفہ کی فرمایش کی تھی ۔




اُف ،میری فرمائیش پوری کرنے کے لیے بھائیوں نے اتنی تکلیف اُٹھائی ۔تو یہی وہ خاص 

کام تھا ،جس کے بارے میں امی نے بتایا تھا ۔


اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے ۔اسے بھائیوں کی قربانی کا اندازہ ہو چکا تھا ۔اسے 

اپنے بھائیوں پر فخر تھا ۔اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ بھائیوں سے کوئی فرمائیش نہیں کرے 


گی ۔